آواز پر اشعار

ہم بہت پچھتائے آوازوں سے رشتہ جوڑ کر

شور اک لمحے کا تھا اور زندگی بھر کا سکوت

…………..

انسان کے دل کو ہی کوئی ساز نہیں ہے

کس پردہ میں ورنہ تری آواز نہیں ہے

نادر شاہجہاں پوری

…………

آوازوں کی بھیڑ میں اتنے شور شرابے میں

اپنی بھی اک رائے رکھنا کتنا مشکل ہے

نسیم سحر

…………

آواز کی طرح سے بیٹھیں گے آج اے جاں

دیکھیں تو آپ کیوں کر ہم کو اٹھا ہی دیں گے

نسیم دہلوی

………….

فون پر بات ہوئی اس سے تو اندازہ ہوا

اپنی آواز میں بس آج ہی شامل ہوا میں

…………

مٹی کی آواز سنی جب مٹی نے

سانسوں کی سب کھینچا تانی ختم ہوئی

……………

یوں تجھے دیکھ کے چونک اٹھتی ہیں سوئی یادیں

جیسے سناٹے میں آواز لگا دے کوئی

………….

آواز پر اشعار

رنگ درکار تھے ہم کو تری خاموشی کے

ایک آواز کی تصویر بنانی تھی ہمیں

……………

کس کا ہے انتظار کہاں دھیان ہے لگا

کیوں چونک چونک جاتے ہو آواز پا کے ساتھ

…………..

سنا ہے شور سے حل ہوں گے سارے مسئلے اک دن

سو ہم آواز کو آواز سے ٹکراتے رہتے ہیں

……………

آواز

جو چیز تھی کمرے میں وہ بے ربط پڑی تھی

تنہائیٔ شب بند قبا کھول رہی تھی

آواز کی دیوار بھی چپ چاپ کھڑی تھی

کھڑکی سے جو دیکھا تو گلی اونگھ رہی تھی

بالوں نے ترا لمس تو محسوس کیا تھا

لیکن یہ خبر دل نے بڑی دیر سے دی تھی

ہاتھوں میں نیا چاند پڑا ہانپ رہا تھا

رانوں پہ برہنہ سی نمی رینگ رہی تھی

یادوں نے اسے توڑ دیا مار کے پتھر

آئینے کی خندق میں جو پرچھائیں پڑی تھی

دنیا کی گزرتے ہوئے پڑتی تھیں نگاہیں

شیشے کی جگہ کھڑکی میں رسوائی جڑی تھی

ٹوٹی ہوئی محراب سے گنبد کے کھنڈر تک

اک بوڑھے موذن کی صدا گونج رہی تھی

………..