ترے نام کی روشنی

ترے نام کی تھی جو روشنی اسے خود ہی تو نے بجھا دیا

نہ جلا سکی جسے دھوپ بھی اُسے چاندنی نے جلا دیا

میں ہوں گردشوں میں گھرا ہوا مجھے آپ اپنی خبر نہیں

وہ شخص تھا میرا رہنما اُسے راستوں نے گنوا دیا

جسے تو نے سمجھا رقیب تھا وہی شخص تیرا نصیب تھا

ترے ہاتھ کی وہ لکیر تھا اسے ہاتھ سے ہی مٹا دیا

مری عمر کا ابھی گلستان تو کھلا ہوا ضرور پر

وہ پھول تھے تیری چاہ کے انہیں موسموں نے گرا دیا