شاعری خلیل الرحمٰن قمر

تم سے تمہارے بعد, یہی واسطہ رہا

بچھڑے ہوؤں میں نام, تیرا ڈھونڈتا رہا

لکھ تو دیا کہ آج سے تم میرے نہیں ہو

لیکن قسم سے, ہاتھ میرا کانپتا رہا

…………

وقت کو تب میں تیری رفتار کہا کرتا تھا

جب تیرے پیار کو ہی پیار کہا کرتا تھا

تیرے ہونے سے سمجھتا تھا کہ دُنیا تُم ہو

ویسے دُنیا کو میں بیکار کہا کرتا تھا

تب میں بچھڑےہوۓلوگوں پے بھی ہنس دیتا تھا

تب میں اُن کو بھی گُنہگار کہا کرتا تھا

تُم سے بچھڑا ہوں تو رویا ہوں وگرنہ کل تک

رونے والوں کو بھی فنکار کہا کرتا تھا

ہم شکل ہے یا وہی ہے میرا دُشمن دیکھو

ایسے ایک شخص کو میں یار کہا کرتا تھا

خلیل الرحمن قمر

غم ہے یا لُطفِ غم ہے معلوم کچھ نہیں

بس یہ ہوا کہ درد کے مارے نہیں رہے

پھر یوں کہ تیرے بعد کی کہانی ہے مُختصر

پھر یوں کہ تیرے بعد ہم تُمہارے نہیں رہے

“شاعری خلیل الرحمٰن قمر”

تم نے بکنا ہے تو بیوپار بھی ہو سکتا ہے

چاہنے والا ، خریدار بھی ہو سکتا ہے

اپنے دشمن کو ابھی شک کی نگاہوں سے نہ دیکھ

ترا قاتل تو تیرا یار بھی ہو سکتا ہے

عشق سولی تو مرنے کی روایت کیسی

پیار زندہ تو سردار بھی ہو سکتا ہے

مجھ سے دامن نہ چھڑا ، مجھ کو بچا کر رکھ لے

مجھ سے اک اور تجھے پیار بھی ہو سکتا ہے

………..

لفظ کتنے ہی تیرے پیروں سے لپٹے ہوں گے

تو نے جب آخری خط میرا جلایا ہو گا

تو نے جب پھول کتابوں سے نکالے ہوں گے

دینے والا بھی تجھے یاد تو آیا ہو گا

خلیل الرحمٰن قمر

یہ لوحِ عشق پہ لکھا ہے تیرے شہر کے لوگ

وفا سے جیت بھی جائیں تو ہار جائیں گے

وہ جن کے ہاتھ میں کاغذ کی کشتیاں ہوں گی

سنا ہے چند وہی لوگ پار جائیں گے

کتابِ ظرفِ محبت پہ ہاتھ رکھ کے کہو

سوال جان کا آیا تو وار جائیں گے

…………

میری بیتاب آنکھوں کے ابھی کشکول خالی ہیں

کبھی جلوؤں سے کہنا تم مجھے کچھ بھیک دے جائیں