شاعری عباس قمر
میرے کمرے میں اداسی ہے قیامت کی مگر
ایک تصویر پرانی سی ہنسا کرتی ہے
عباس قمر
حالت حال سے بیگانہ بنا رکھا ہے
خود کو ماضی کا نہاں خانہ بنا رکھا ہے
…………
خموشی کہہ رہی ہے اب یہ دو آبا رواں ہوگا
ہوا چپ ہو تو بارش کے شدید آثار ہوتے ہیں
…………
میرے ماتھے پہ ابھر آتے تھے وحشت کے نقوش
میری مٹی کسی صحرا سے اٹھائی گئی تھی
عباس قمر
میرے ماتھے پہ ابھر آتے تھے وحشت کے نقوش
میری مٹی کسی صحرا سے اٹھائی گئی تھی
شاعری عباس قمر
اشکوں کو آرزوئے رہائی ہے روئیے
آنکھوں کی اب اسی میں بھلائی ہے روئیے
رونا علاج ظلمت دنیا نہیں تو کیا
کم از کم احتجاج خدائی ہے روئیے
تسلیم کر لیا ہے جو خود کو چراغ حق
دنیا قدم قدم پہ صبائی ہے روئیے
خوش ہیں تو پھر مسافر دنیا نہیں ہیں آپ
اس دشت میں بس آبلہ پائی ہے روئیے
ہم ہیں اسیر ضبط اجازت نہیں ہمیں
رو پا رہے ہیں آپ بدھائی ہے روئیے
عباس قمر
جہاں سارے ہوا بننے کی کوشش کر رہے تھے
وہاں بھی ہم دیا بننے کی کوشش کر رہے تھے
ہمیں زور تصور بھی گنوانا پڑ گیا ہم
تصور میں خدا بننے کی کوشش کر رہے تھے
زمیں پر آ گرے جب آسماں سے خواب میرے
زمیں نے پوچھا کیا بننے کی کوشش کر رہے تھے
انہیں آنکھوں نے بیدردی سے بے گھر کر دیا ہے
یہ آنسو قہقہہ بننے کی کوشش کر رہے تھے
ہمیں دشواریوں میں مسکرانے کی طلب تھی
ہم اک تصویر سا بننے کی کوشش کر رہے تھے
عباس قمر