آنکھوں وہ بزم، جس کا نشاں ڈولتے چراغ
دل وہ چمن، کہ جس کا ہے رنگِ بہار دُھند
کمرے میں میرے غم کے سِوا اور کُچھ نہیں
کھڑکی سے جھانکتی ہے کسے بار بار’ دُھند
فردوسِ گوش ٹھرا ہے مبہم سا کوئی شور
نظّار گی کا شہر میں ہے اعتبار، دُھند
کوئی بھی چیز اپنی جگہ پر نہیں رہی
جاتے ہی ایک شخص کے کیا کیا بدل گیا!
آنکھوں میں جتنے اشک تھے جگنو سے بن گئے
وہ مُسکرایا اور جاناں مری دُنیا بدل گیا