آج کی اُردو غزل

مصروف رہ گزر پہ چلا جا رہا تھا میں

پھر کیوں لگا کہ سب سے جدا جا رہا تھا میں

تعمیر ذات ہی میں لگی زندگی تمام

خالق بنا رہا تھا بنا جا رہا تھا میں

حاصل تھیں جن کو راحتیں وہ بھی فنا ہوئے

کیوں اپنی مفلسی سے ڈرا جا رہا تھا میں

دریائے زیست کی یہی منزل تھی آخری

اک بحر بیکراں میں گرا جا رہا تھا میں

سمجھا تھا آئنے میں مرا عکس ہی نہیں

ظاہر تھا اور سب سے چھپا جا رہا تھا میں

پہلے تو کوئے یار کی پھر دار کی طلب

دلدل میں خواہشوں کی دھنسا جا رہا تھا میں

میں گرد راہ تھا مگر اعجاز دیکھیے

ہر کارواں کے ساتھ اڑا جا رہا تھا میں

رکنے میں ڈر یہ تھا کہ توازن بگڑ نہ جائے

عادلؔ اسی گماں میں چلا جا رہا تھا میں

———–

اب بے وجہ ، بے سبب دن کو رات نہیں کرتا

فُرصت ملے بھی تو کسی سے بات نہیں کرتا

اعتبار ، خُلوص ، وفا کے دعوے داروں کو

سُپرد سب کر دیتا ہوں ، اپنی ذات نہیں کرتا

لہجہ نرم رکھ کر ملتا ہوں عاجزی کے ساتھ

مگر ہر فرد پہ ضائع ، سب جذبات نہیں کرتا

تذلیلِ محبت ہے ، بے حسوں سے محبت کرنا

پتھروں پہ عیاں اپنے ، احساسات نہیں کرتا

ہار جاتا ہوں سب سے ہی اب جان بوجھ کر

میں کسی کے نصیب میں ، مات نہیں کرتا

———–

بنائے ارض و فلک حرف ابتدا ہوں میں

بکھر گیا تو سمجھ لو کہ انتہا ہوں میں

یوں ہی سلگتے رہو آگ کی قبا ہوں میں

تمہیں بچاؤں‌ گا کیا خود سلگ رہا ہوں میں

اٹھائے پھرتا ہوں بے شخصیت بدن اپنا

اور اپنے گمشدہ چہرے کو ڈھونڈھتا ہوں میں

یہ کہر کہر سے چہرے دھواں دھواں آواز

تمہارے شہر میں شاید ابھی نیا ہوں میں

لہو لہو سی کھنڈر کی تمام اینٹیں ہیں

کہاں سے نکلوں کہ اک آہ نارسا ہوں میں

نئی ہے مشق نہ جانے کہاں پہ گر جاؤں

نفس کی ڈور پہ کرتب دکھا رہا ہوں میں

کمالؔ جھوٹ ہے یارو فقط فریب ہے وہ

کمالؔ سچ کو ابھی تک تلاشتا ہوں میں

عبد اللہ کمال

————

خود سے ملنے کی جستجو تم ہو

جس پہ مرتا ہوں خوبرو تم ہو

ناز کرتا ہوں آج میں دل پر

دل ہے میرا تو آرزو تم ہو

ہر گھڑی خود کو بھول جاتا ہوں

ہر گھڑی میرے روبرو تم ہو

جان مضطر کی بے قراری میں

جب بھی دیکھا ہے چار سو تم ہو

خامشی بھی کلام کرتی ہے

گونگے سپنوں کی گفتگو تم ہو

اویس الحسن خان

————

آج کی اُردو غزل

میری اب شادی ہو رہی ہے

مجھ سے رابطہ منقطہ کردو

یہ سمجھو کہ تم نیند میں تھے

مجھے خود کے لیے خواب کردو

دیکھو کہ تمہارے عشق کا امتحاں ہے

اپنے ہاتھوں سے مجھے الوداع کردو

تم مجھے بھول جائو محبت کی قسم

یا مجھے پگڑیوں کے واسطے قرباں کردو

میری ہاتھوں پہ مہندی جچ رہی ہے

میری پائوں پہ کنگن شور کرتے

سنو مسلسل ایک ہی آواز کرتے

تم دل پہ پتھر رکھو

مجھے رخصت کردو ۔۔۔

ذیشان حبیب

————-

آج کی اُردو غزل

بند اُن کھڑکیوں کے پار کوئی

آرہی ھے نا جھنکار کوئی

دور تک شور ہے آوازوں کا

آ رہا ہے نظر نہ یار کوئی

میری حدٍ نظر محبت ھے

اور رہا دل پہ نہ اختیار کوئی

در بھی حصوں میں بٹ گیا شاید ذینی

ہے کہیں درمیاں دیوار کوئی

………..