ایسی بھی کیا خبر

ایسی بھی کیا اڑی ہے خبر دیکھ کر مجھے

سب پھیرنے لگے ہیں نظر دیکھ کر مجھے

کیوں چھٹ نہیں رہا ہے سیہ رات کا دھواں

کیوں منہ چھپا رہی ہے سحر دیکھ کر مجھے

دونوں ہی رو پڑے ہیں سر موسم خزاں

میں دیکھ کر شجر کو شجر دیکھ کر مجھے

مانوس ہو چکا ہے مری آہٹوں سے گھر

کھل جا رہے ہیں آپ ہی در دیکھ کر مجھے

یوں تو ہزار رنج تھے شکوے گلے بھی تھے

کچھ بھی نہ کہہ سکا وہ مگر دیکھ کر مجھے