خلوص نيت
مضبوط تعلق کسی ملاقات کا محتاج نہيں ہوتا کئی
تعلقات ملاقاتوں کے باوجود ٹوٹ جاتے ہیں اور کئی بغير ملاقات کے بھی چلتے ہيں
بس خلوص نيت شرط ہے
———-
اک پرندہ ابھی اڑان میں ہے
تیر ہر شخص کی کمان میں ہے
زندگی سنگ دل سہی لیکن
آئینہ بھی اسی چٹان میں ہے
خود کو پایا نہ عمر بھر ہم نے
کون ہے جو ہمارے دھیان میں ہے
———-
چاند سے تجھ کو جو دے نسبت سو بے انصاف ہے
چاند کے منہ پر ہیں چھائیں تیرا مکھڑا صاف ہے
———–
ہم اپنی ریاست کے بادشاہ لوگ
افسوس تیرے اک دیدار کے محتاج نکلے
————
خوشی کے وقت بھی تجھ کو ملال کیسا ہے
عروج حسن میں نقص کمال کیسا ہے
جو ایک دوجے کو چاہیں تو کیوں نہ اپنا لیں
یہ دل سے پوچھ کے بتلا خیال کیسا ہے
نہیں جو آنے کے سب ان کی راہ تکتے ہیں
یہ انتظار کا شہر وبال کیسا ہے
ہے جس کے ساتھ جڑے اک ہزار اک خدشے
وہ ہجر کیسا ہے حامدؔ وصال کیسا ہے
———–
غیر پر لطف کرے ہم پہ ستم یا قسمت
تھا نصیبوں میں ہمارے یہ صنم یا قسمت
یار تو یار نہیں بخت ہیں سو الٹے ہیں
کب تلک ہم یہ سہیں درد و الم یا قسمت
کوچہ گردی سے اسے شوق ہے لیکن گاہے
اس طرف کو نہیں رکھتا وہ قدم یا قسمت
کوچۂ یار میں تھوڑی سی جگہ دے اے بخت
مانگتا تجھ سے نہیں ملک عجم یا قسمت
جان و دل میں سے نہیں ایک بھی اب نیک نصیب
دونوں کم بخت ہوئے آ کے بہم یا قسمت
آصفؔ اب اور لگے کرنے ترقی دن رات
شامت بخت ہوئی میری تو کم یا قسمت
———–
لاکھ دُوری ہو مگر عہد نبھاتے رہنا
.
جب بھی بارش ہو میرا سوگ مناتے رہنا
.
تم گئے ہو تو سرِ شام یہ عادت ٹھہری
.
بس کنارے پہ کھڑے ہاتھ ہلاتے رہنا
.
ایک مدت سے یہ معمول ہوا ہے اب تو
.
آپ ہی روٹھنا اور آپ ہی مناتے رہنا
.
تم کو معلوم ہے فرحت یہ پاگل پن ہے
.
دُور جاتے ہوئے لوگوں کو بُلاتے رہنا
———–