دھوکہ پر خوبصورت اشعار

دھوکہ دیتی ہے یہ محراب کی کالک اکثر

لوگ کردار سے کھیلتے ہیں جبینوں سے نہیں

مجھ سے اک پل کی بھی غفلت نہ برتنے والے

رابطہ خود سے مرا کتنے مہینوں سے نہیں

………..

خود اپنے ساتھ دھوکہ کیوں کروں میں

کسی سائے کا پیچھا کیوں کروں میں

اسے میں بھول جانا چاہتا ہوں

مگر خود پر بھروسہ کیوں کروں میں

کبھی سوچوں کہ خود میں لوٹ آؤں

کبھی سوچوں کہ ایسا کیوں کروں میں

………..

دھوکہ پر خوبصورت اشعار

جگر تھامو نہ تم اپنا نہ ہی زخموں کو بھرنے دو

چھپاؤ دکھ نہ آنکھوں میں اسے دنیا کو پڑھنے دو

محبت کی عبادت میں نہ چھوڑو ساتھ ساجن کا

کرو سجدے رفاقت کے دعا کو ساتھ چلنے دو

مزہ ہو یاد میں جس کی تڑپ کو زندگی کرلو

قدم روکو نہ ہجراں میں غموں کو آگے بڑھنے دو

وفا کے نام پر دھوکہ نہ دو تم اپنے ہمدم کو

نہ وعدوں کو بھلاؤ تم نہ ہی قسموں کو مرنے دو

اجالے کو اجالے میں کہاں جانچو گے رک جاؤ

نہ پرکھو دن میں تم جگنو زرا سی شام ڈھلنے دو

بچھڑ کر تم کسی سے موت کو نامہ نہ دے ڈالو

نہ چھڑکو راکھ تم خود پر نہ خود کو لاش بننے دو

مجھے لگتا ہے فتنے ہیں مگر کیا لطف ہے ان میں

یہ نینوں کی لڑائی ہے نہ روکو ان کو لڑنے دو

آفتاب شاہ

…………

عشق سے میں ڈر چکا تھا ڈر چکا تو تم ملے

دل تو کب کا مر چکا تھا مر چکا تو تم ملے

بے قراری پھر محبت پھر سے دھوکہ اب نہیں

فیصلہ میں کر چکا تھا کر چکا تو تم ملے

میں تو سمجھا سب سے بڑھ کر مطلبی تھا میں یہاں

خود پہ تہمت دھر چکا تھا دھر چکا تو تم ملے

اورنگ زیب

By Hum Poetry