شاعری عبد الاحد ساز
مرے مہ و سال کی کہانی کی دوسری قسط اس طرح ہے
جنوں نے رسوائیاں لکھی تھیں خرد نے تنہائیاں لکھی ہیں
شاعری عبد الاحد ساز
مری رفیق نفس موت تیری عمر دراز
کہ زندگی کی تمنا ہے دل میں افزوں پھر
—–
پیاس بجھ جائے زمیں سبز ہو منظر دھل جائے
کام کیا کیا نہ ان آنکھوں کی تری آئے ہمیں
………….
شاعری عبد الاحد ساز
بام و در کی روشنی پھر کیوں بلاتی ہے مجھے
میں نکل آیا تھا گھر سے اک شب تاریک میں
—–
بول تھے دوانوں کے جن سے ہوش والوں نے
سوچ کے دھندلکوں میں اپنا راستہ پایا
شاعری عبد الاحد ساز
نیک گزرے مری شب صدق بدن سے تیرے
غم نہیں رابطۂ صبح جو کاذب ٹھہرے
………….
خرد کی رہ جو چلا میں تو دل نے مجھ سے کہا
عزیز من ”بہ سلامت روی و باز آئی”
——
وہ تو ایسا بھی ہے ویسا بھی ہے کیسا ہے مگر
کیا غضب ہے کوئی اس شوخ کے جیسا بھی نہیں
——
عبث ہے راز کو پانے کی جستجو کیا ہے
یہ چاک دل ہے اسے حاجت رفو کیا ہے
—–
غزل
سوچ کر بھی کیا جانا جان کر بھی کیا پایا
جب بھی آئینہ دیکھا خود کو دوسرا پایا
ہونٹ پر دیا رکھنا دل جلوں کی شوخی ہے
ورنہ اس اندھیرے میں کون مسکرا پایا
بول تھے دوانوں کے جن سے ہوش والوں نے
سوچ کے دھندلکوں میں اپنا راستہ پایا
فلسفوں کے دھاگوں سے کھینچ کر سرا دل کا
وہم سے حقیقت تک ہم نے سلسلہ پایا
عمر یا زمانے کا کھیل ہے بہانے کا
سب نے ماجرا دیکھا کس نے مدعا پایا
شاعری طلب اپنی شاعری عطا اس کی
حوصلے سے کم مانگا ظرف سے سوا پایا
سازؔ جب کھلا ہم پر شعر کوئی غالبؔ کا
ہم نے گویا باطن کا اک سراغ سا پایا
———-