عباس علوی کی شاعری

جانتا ہوں کون کیا ہے آپ کیوں دیں مشورہ

میں لٹیروں سے بھی واقف اور رہبر آشنا

عباس علوی

یہ تم سے کس نے کہا ہے کہ داستاں نہ کہو

مگر خدا کے لیے اتنا سچ یہاں نہ کہو

یہ کیسی چھت ہے کہ شبنم ٹپک رہی ہے یہاں

یہ آسمان ہے تم اس کو سائباں نہ کہو

رہ حیات میں ناکامیاں ضروری ہیں

یہ تجربہ ہے اسے سعیٔ رائیگاں نہ کہو

مری جبین بتائے گی عظمتیں اس کی

اسے خدا کے لیے سنگ آستاں نہ کہو

یہاں مقیم ہیں ویرانیاں رگ و پے میں

تم اور کچھ بھی کہو اس کو شہر جاں نہ کہو

جہاں جہاں بھی ستمگر ملیں ضرورت ہے

کہ اس مقام کو تم جادۂ اماں نہ کہو

معاشرے کا اثر تو ضرور ہے علویؔ

مری غزل کو زمانے کی داستاں نہ کہو

عباس علوی

چشم ظاہر بیں کو ہر اک پیش منظر آشنا

مل نہیں سکتا تجھے اب مجھ سے بہتر آشنا

ظرف تیرا مجھ پہ روشن ہو گیا ہے اس طرح

جس طرح قطرے سے ہوتا ہے سمندر آشنا

ٹوٹنا تقدیر اس کی توڑنا اس کا خمیر

غیر ممکن ہے نہ ہو شیشے سے پتھر آشنا

ہر طرح کے پھول ہیں دل کی زمیں پر دیکھیے

کس طرح کہہ دوں نہیں سینے سے خنجر آشنا

میں نے چٹانوں پہ گل بوٹے تراشے ہیں بہت

آپ کی نظریں بھی ہوتیں کاش منظر آشنا

جانتا ہوں کون کیا ہے آپ کیوں دیں مشورہ

میں لٹیروں سے بھی واقف اور رہبر آشنا

عباس علوی

جو سارے ہم سفر اک بار حرز جاں کر لیں

تو جس زمیں پہ قدم رکھیں آسماں کر لیں

اشارہ کرتی ہیں موجیں کہ آئے گا طوفاں

چلو ہم اپنے ارادوں کو بادباں کر لیں

پروں کو جوڑ کے اڑنے کا شوق ہے جن کو

انہیں بتاؤ کہ محفوظ آشیاں کر لیں

جو قتل تو نے کیا تھا بنا کے منصوبہ

ترے ستم کو بڑھائیں تو داستاں کر لیں

دہکتے شعلوں پہ چلنے کا شوق ہے جن کو

رتوں کی آگ میں وہ حوصلے جواں کر لیں

یہ ان سے کہہ دو اگر امتحان کی ضد ہے

سمندروں کی طرح دل کو بے کراں کر لیں

ہر ایک بوند کا لیں گے حساب ہم علویؔ

ہمارے خون سے دل کو وہ شادماں کر لیں

عباس علوی