عداوت مت کر

اپنے ہی خون سے اس طرح عداوت مت کر

زندہ رہنا ہے تو سانسوں سے بغاوت مت کر

سیکھ لے پہلے اجالوں کی حفاظت کرنا

شمع بجھ جائے تو آندھی سے شکایت مت کر

سر کی بازار سیاست میں نہیں ہے قیمت

سر پہ جب تاج نہیں ہے تو حکومت مت کر

خواب ہو جام ہو تارہ ہو کہ محبوب کا دل

ٹوٹنے والی کسی شے سے محبت مت کر

دیکھ پھر دست ضرورت میں نہ بک جائے ضمیر

زر کے بدلے میں اصولوں کی تجارت مت کر

پرسش حال سے ہو جائیں گے پھر زخم ہرے

اس سے بہتر ہے یہی میری عیادت مت کر

سر جھکانے کو ہی سجدہ نہیں کہتے داناؔ

جس میں دل بھی نہ جھکے ایسی عبادت مت کر

عباس دانا

وہی ہوا ناں پھر بچھڑنے پہ بات آ پہنچی

اسے کہا بھی تھا پرانے حساب رہنے دو

………..

میں خود سے دور بہت دور جا بسوں گا کہیں

یہ طے تو کر ہی چکا ہوں بہانہ چاہتا ہوں

…………

کہاں شفاف لکھتی ہوں کہاں نایاب لکھتی ہوں

میرا وجود مٹی ہے میں خود کو خاک لکھتی ہوں

………..

‏اس کی وفا نہ میری وفا کا سوال تھا

دونوں ہی چپ تھے صرف انا کا سوال تھا

مجبور ہم تھے اور وہ مختار تھا مگر

دونوں کے بیچ دست دعا کا سوال تھا

داناؔ مجھے ازل سے غزل کی تلاش تھی

یہ میری زندگی کی ادا کا سوال تھا

عباس دانا