غزل عباس دانا
بے وفائی اس نے کی میری وفا اپنی جگہ
خون دل اپنی جگہ رنگ حنا اپنی جگہ
کتنے چہرے آئے اپنا نور کھو کر چل دیے
ہے مگر روشن ابھی تک آئنہ اپنی جگہ
زندگی نے اس کو ساحل سے صدائیں دیں بہت
وقت کا دریا مگر بہتا رہا اپنی جگہ
اس کی محفل سے مجھے اب کوئی نسبت ہی نہیں
ہے مری تنہائیوں کا سلسلہ اپنی جگہ
ہم چراغوں سے کریں گے دوستی کی بات اب
یہ اندھیروں نے کیا ہے فیصلہ اپنی جگہ
تو سمندر اور میری ذات اک قطرہ سہی
تیری رحمت ہر طرف میری دعا اپنی جگہ
اب تو مجھ کو بھی صدا دیتے ہیں داناؔ کہہ کے لوگ
زندگی رہنے دے اپنا مشورہ اپنی جگہ
غزل عباس دانا
عقل و دانش کو زمانے سے چھپا رکھا ہے
خود کو دانستہ ہی دیوانہ بنا رکھا ہے
گھر کی ویرانیاں لے جائے چرا کر کوئی
اسی امید پہ دروازہ کھلا رکھا ہے
بن گئے اونچے محل ان کی عبادت گاہیں
نام دولت کا جہاں سب نے خدا رکھا ہے
قابل رشک سے وہ دختر مفلس جس نے
تنگ دستی میں بھی عزت کو بچا رکھا ہے
جس کے محلوں میں چراغوں کا نہ تھا کوئی شمار
اس کی تربت پہ فقط ایک دیا رکھا ہے
اس سے بڑھ کر تری یادوں کی کروں کیا تعظیم
تیری یادوں میں زمانے کو بھلا رکھا ہے
سرخ رو ہو گئیں تنہائیاں میری داناؔ
اس نے کاندھے پہ مرے دست حنا رکھا ہے