کوئی بھی پھول مت توڑے
لکھا تھا ایک تختی پر کوئی بھی پھول مت توڑے مگر آندھی تو ان پڑھ تھی
سو جب وہ باغ سے گزری کوئی اکھڑا کوئی ٹوٹا خزاں کے آخری دن تھے
امجد اسلام امجد
……….
میرے کمرے میں دوائیوں کے سوا کچھ بھی نہیں
مطمئن ایسے ہوں جیسے ہوا کچھ بھی نہیں
……….
اس کے لہجے میں برف تھی لیکن
چھو کے دیکھا تو ہاتھ جلنے لگے
……….
جہاں ہو پیار غلط فہمیاں بھی ہوتی ہیں
سو بات بات پہ یوں دل برا نہیں کرتے
……….