تشنہ لب عباس قمر

تشنہ لب ایسا کہ ہونٹوں پہ پڑے ہیں چھالے

مطمئن ایسا ہوں دریا کو بھی حیرانی ہے

عباس قمر

لمحہ در لمحہ تری راہ تکا کرتی ہے

ایک کھڑکی تری آمد کی دعا کرتی ہے

سلوٹیں چیختی رہتی ہیں مرے بستر کی

کروٹوں میں ہی مری رات کٹا کرتی ہے

وقت تھم جاتا ہے اب رات گزرتی ہی نہیں

جانے دیوار گھڑی رات میں کیا کرتی ہے

چاند کھڑکی میں جو آتا تھا نہیں آتا اب

تیرگی چاروں طرف رقص کیا کرتی ہے

میرے کمرے میں اداسی ہے قیامت کی مگر

ایک تصویر پرانی سی ہنسا کرتی ہے

تشنہ لب عباس قمر

ہم ایسے سرپھرے دنیا کو کب درکار ہوتے ہیں

اگر ہوتے بھی ہیں بے انتہا دشوار ہوتے ہیں

خموشی کہہ رہی ہے اب یہ دو آبا رواں ہوگا

ہوا چپ ہو تو بارش کے شدید آثار ہوتے ہیں

ذرا سی بات ہے اس کا تماشا کیا بنائیں ہم

ارادے ٹوٹتے ہیں حوصلے مسمار ہوتے ہیں

شکایت زندگی سے کیوں کریں ہم خود ہی تھم جائیں

جو کم رفتار ہوتے ہیں وہ کم رفتار ہوتے ہیں

گلے میں زندگی کے ریسمان وقت ہے تو کیا

پرندے قید میں ہوں تو بہت ہوشیار ہوتے ہیں

جہاں والے مقید ہیں ابھی تک عہد طفلی میں

یہاں اب بھی کھلونے رونق بازار ہوتے ہیں

گلوئے خشک ان کو بھیجتا ہے دے کے مشکیزہ

کچھ آنسو تشنہ کاموں کے علمبردار ہوتے ہیں

بدن ان کو کبھی باہر نکلنے ہی نہیں دیتا

قمر عباسؔ تو باقاعدہ تیار ہوتے ہیں

عباس قمر

حالت حال سے بیگانہ بنا رکھا ہے

خود کو ماضی کا نہاں خانہ بنا رکھا ہے

خوف دوزخ نے ہی ایجاد کیا ہے سجدہ

ڈر نے انسان کو دیوانہ بنا رکھا ہے

منبر عشق سے تقریر کی خواہش ہے ہمیں

دل کو اس واسطے مولانا بنا رکھا ہے

ماتم شوق بپا کرتے ہیں ہر شام یہاں

جسم کو ہم نے اذاں خانہ بنا رکھا ہے

وقت رخصت ہے مرے چاہنے والوں نے بھی اب

سانس کو وقت کا پیمانہ بنا رکھا ہے

جانتے ہیں وہ پرندہ ہے نہیں ٹھہرے گا

ہم نے اس دل کو مگر دانا بنا رکھا ہے

عباس قمر