وہ کتنا بدل گیا

آنکھوں کا رنگ ، بات کا لہجہ بدل گیا

وہ شخص ایک شام میں کتنا بدل گیا

شاید وفا کے کھیل سے اکتا گیا تھا وہ

منزل کے پاس آ کے جو رستہ بدل گیا

اپنی گلی میں اپناہی گھرڈھونڈتے ہیں لوگ

امجد یہ کون شہر کا نقشہ بدل گیا

امجد اسلام امجد