بیٹیوں کوتتلیاں نہیں شہد کی مکھیاں بناؤں پنکھ بھی دو اور ڈھنگ بھی دو ان کو سر کچلنے کا ہنر بھی سیکھاؤں تاکہ اگر انکو سانپوں کی بستی میں زندگی گزارنی پڑ جاۓ تو اپنا دفاع کر سکیں betiyon ko tetliyan nihen shahad ki makhiyan banaou or ddhang bhi do an ko sar kuchalne ka...
یہ جملہ ہسپتال کی دیوار پر لکھا ہوا تھا ہم ٹھیک ہوتے اگر وہ کسی اور کو میسر نہیں ہوتے
پھسلا جو میرے ہاتھ سے وہ پل نہیں ملا گزرا جو میرا کل مجھے واپس نہیں ملا سوچا کسی کے دل میں اب گھر بنا لوں لیکن کسی کا دل مجھے ثابت نہیں ملا ایسا نہیں کہ مجھے منزل نہیں ملی منزل ملی مگر کبھی رستہ نہیں ملا...
قبول ہوتی ہوئی بد دعا سے ڈرتے ہیں وگرنہ لوگ کہاں یہ خدا سے ڈرتے ہیں چلو کہ فیصلہ آخر یہاں تمام ہوا یہ کم نصیب تری خاک پا سے ڈرتے ہیں سبھی سے کہتے ہیں بس خیر کی دعا مانگو کبھی کبھی تو ہم اتنا خدا سے ڈرتے ہیں یہی برائی ہے بجھتے ہوئے چراغوں میں یہ خشک پتوں کی صورت ہوا سے...
دلوں سے کب نکلتے ہیں جن سے محبت ہو جاۓ بھول جانا بھول دینا فقط ایک وہم ہوتا ہے دیکھا جاۓ تو ہر بھیڑ کا حصہ ہوں میں مسمھجا جاۓ تو ایک شخص بھی میرا نہیں کاش میں پلٹ جاؤں بچپن کی وادی میں جہاں نہ کویٔ ضرورت تھی نہ کویٔ ضروری...