میری وفا اپنی جگ

میری وفا اپنی جگ

بے وفائی اس نے کی میری وفا اپنی جگہ خون دل اپنی جگہ رنگ حنا اپنی جگہ کتنے چہرے آئے اپنا نور کھو کر چل دیے ہے مگر روشن ابھی تک آئنہ اپنی جگہ زندگی نے اس کو ساحل سے صدائیں دیں بہت وقت کا دریا مگر بہتا رہا اپنی جگہ اس کی محفل سے مجھے اب کوئی نسبت ہی نہیں ہے مری تنہائیوں...
کمرے میں میرے غم کے سِوا

کمرے میں میرے غم کے سِوا

آنکھوں وہ بزم، جس کا نشاں ڈولتے چراغ دل وہ چمن، کہ جس کا ہے رنگِ بہار دُھند کمرے میں میرے غم کے سِوا اور کُچھ نہیں کھڑکی سے جھانکتی ہے کسے بار بار’ دُھند فردوسِ گوش ٹھرا ہے مبہم سا کوئی شور نظّار گی کا شہر میں ہے اعتبار، دُھند کوئی بھی چیز اپنی جگہ پر نہیں رہی جاتے ہی...
وصل کی رات

وصل کی رات

‏لہریں اٹھ اٹھ کےمگر اس کا بدن چومتی تھیں وہ جو دریا پہ گیا خوب ہی دریا چمکا یوں تو ہر رات چمکتے ہیں ستارے لیکن وصل کی رات بہت صبح کا تارا چمکا جیسے بارش سے دھلے صحن گلستاں امجد آنکھ جب خشک ہوئی اور بھی چہرا چمکا امجد اسلام...
جو زخم تو نے دیے

جو زخم تو نے دیے

یہ اور بات ہے تجھ سے گلا نہیں کرتے جو زخم تو نے دیے ہیں بھرا نہیں کرتے ہزار جال لیے گھومتی پھرے دنیا ترے اسیر کسی کے ہوا نہیں کرتے یہ آئنوں کی طرح دیکھ بھال چاہتے ہیں کہ دل بھی ٹوٹیں تو پھر سے جڑا نہیں کرتے ہر اک دعا کے مقدر میں کب حضوری ہے تمام غنچے تو محبت کے کھلا...
جس کا عنوان عورت

جس کا عنوان عورت

میرا دل کر رہا ہے کہ میں ایک کتاب لکھوں جس کا عنوان عورت ہو میں اس کا صبر بھی لکھوں اس کا کرب بھی لکھوں میں اس کی آہ بھی لکھوں اس پر وا ہ بھی لکھوں اس کی ذات پر اٹھے وہ الفاظ بھی لکھوں جسے سن کر وہ کبھی رو دیتی ہے کبھی ہنس دیتی ہے اور کبھی چپ چاپ سہ جاتی...