معلوم ہے آنسو مسکراہٹ سے زیادہ اسپیشل ہوتے ہیں وہ اس لیے کے مسکراہٹ تو ہر کسی کے لیے ہوتی ہے لیکن یہ آنسو صرف اُن کے لیے جنہیں ہم کبی کھونا نہیں...
اس کی دلہن سجاؤں گی کمال ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاؤں گی بچھا دیا تھا گلابوں کے ساتھ اپنا وجود وہ سو کے اٹھے تو خوابوں کی راکھ اٹھاؤں گی جواز ڈھونڈ رہا تھا نئی محبت کا وہ کہہ رہا تھا کہ میں اس کو بھول جاؤں گی پروین...
بجھ گیا رات وہ ستارا بھی حال اچھا نہیں ہمارا بھی یہ جو ہم کھوئے کھوئے رہتے ہیں اس میں کچھ دخل ہے تمہارا بھی ڈوبنا ذات کے سمندر میں ہے یہ طوفان بھی کنارا بھی اب مجھے نیند ہی نہیں آتی خواب ہے خواب کا سہارا بھی لوگ جیتے ہیں کس طرح اجملؔ ہم سے ہوتا نہیں گزارا بھی اجمل...
مگر اس ادا سے رونا کے روئے سارا زمانا اپنے سائے سے بہی اشکوں کو چھپا کر رونا جب بہی رونا تو چراغوں کو بجھا کر رونا جہاں چوٹ کہانا وہاں مسکرانا مگر اس ادا سے رونا کے روئے سارا...
ہر پھول خوشبودار نہیں ہوتا ہر دوست وفادار نہیں ہوتا نظروں سے ملتی ہیں اکثر نظریں ورنہ ہر نظر کا مطلب پیار نہیں ہوتا