ماہتاب مانگتے ہیں ستارے چاہتے ہیں ماہتاب مانگتے ہیں مرے دریچے نئی آب و تاب مانگتے ہیں وہ خوش خرام جب اس راہ سے گزرتا ہے تو سنگ و خشت بھی اذن خطاب مانگتے ہیں کوئی ہوا سے یہ کہہ دے ذرا ٹھہر جائے کہ رقص کرنے کی مہلت حباب مانگتے ہیں عجیب ہے یہ تماشا کہ میرے عہد کے لوگ...
ہر شام کہتے ہو ہر شام یہ کہتے ہو کہ کل شام ملیں گے آتی نہیں وہ شام جس شام ملیں گے اچھا نہیں لگتا مجھے شاموں کا بدلنا کل شام بھی کہتے تھے کہ کل شام ملیں گے آتی ھے جو ملنے کی گھڑی کرتے ہو بہانے ڈرتے ہو ڈراتے ہو کہ الزام ملیں گے یہ راہِ محبت ھے یہاں چلنا نہیں آساں...
دوست بھی ملتے ہیں دوست بھی ملتے ہیں محفل بھی جمی رہتی ہے تو نہیں ہوتا تو ہر شے میں کمی رہتی ہے اب کے جانے کا نہیں موسمِ گر یہ شاید مسکرائیں بھی تو آنکھوں میں نمی رہتی ہے عشق عمروں کی مسافت ہے کسے کیا معلوم؟ کب تلک ہم سفری ہم قدمی رہتی ہے کچھ جزیروں میں کبھی...
محبت تو ایسی تھی کہ خدا سے جا ملا عشق مجازی سے عشق حقیقی سے جا ملا ملے تو معلوم ہوا کہ محبت اس سے نہیں خدا سے تھی ورنہ ہم نے تو کبھی مثلے پر عشق کی نمازیں نہیں پڑھی سجدوں میں گر کر مانگا تھا اسے مانگتے مانگتے خدا سے جا ملا ترک کی نمازیں سکون اک پل نہیں سکون کی تلاش...
جس سے محبت ہو نہ اُس شخص کی طرف سے ملی ہوئی تھوڑی سی توجہ بھی ایک عام سے چہرے رکھنے والے سادہ سے انسان کو بے حد دلکش بنانے کا ہنر رکھتی ہے زندگی نے مجھے یہی سبق سِکھایا ھے کہ ھمیں لوگوں کو وھی محبت دینی چاھیے جس محبت کے وہ طلب گار ھوتے...