غزل عباس تابش دہن کھولیں گی اپنی سیپیاں آہستہ آہستہ گزر دریا سے اے ابر رواں آہستہ آہستہ لہو تو عشق کے آغاز ہی میں جلنے لگتا ہے مگر ہونٹوں تک آتا ہے دھواں آہستہ آہستہ پلٹنا بھی اگر چاہیں پلٹ کر جا نہیں سکتے کہاں سے چل کے ہم آئے کہاں آہستہ آہستہ کہیں لالی بھری تھالی نہ...
تمہیں کبھی پورا لکھوں کبھی ادھورا لکھوں میں رات کو بیٹھ کر تمہیں سویرا لکھوں میں جب بھی لکھوں بس اتنا لکھوں مجھے تیرا اور تجھے میرا...
کچھ حادثے خاموش کر دیتے ہیں ورنہ گفتگو کس کو نہیں آتی
اے وقت تو نے دیکھا ہے تو نے اے وقت پلٹ کر بھی کبھی دیکھا ہے کیسے ہیں سب تیری رفتار کے مارے ہوئے لوگ
رات ہے اندھیری بہت رات ہے اندھیری بہت اک دیا ہی جلا دے کوئی میں برسوں کا جاگا ہوں مجھے سلا دے کوئی