اس رنگ بدلتی دنیا میں انسان بدلتے رہتے ہیں گھر ایک ہی رہتا ہے مہمان بدلتے رہتے ہیں
قبر پہ تم میری رونے آؤ گے ہم سے پیار ہے یہ بتانے آؤ گے ابھی زندہ ہے تو بہت رلاتے ہو جب سوئینگے تو جگانے آؤ گے
دہن کھولیں گی اپنی سیپیاں آہستہ آہستہ گزر دریا سے اے ابر رواں آہستہ آہستہ لہو تو عشق کے آغاز ہی میں جلنے لگتا ہے مگر ہونٹوں تک آتا ہے دھواں آہستہ آہستہ پلٹنا بھی اگر چاہیں پلٹ کر جا نہیں سکتے کہاں سے چل کے ہم آئے کہاں آہستہ آہستہ کہیں لالی بھری تھالی نہ گر جائے سمندر...
تمہیں کبھی پورا لکھوں کبھی ادھورا لکھوں میں رات کو بیٹھ کر تمہیں سویرا لکھوں میں جب بھی لکھوں بس اتنا لکھوں مجھے تیرا اور تجھے میرا...
کچھ حادثے خاموش کر دیتے ہیں ورنہ گفتگو کس کو نہیں آتی