وہ کتنا بدل گیا

وہ کتنا بدل گیا

وہ کتنا بدل گیا آنکھوں کا رنگ ، بات کا لہجہ بدل گیا وہ شخص ایک شام میں کتنا بدل گیا شاید وفا کے کھیل سے اکتا گیا تھا وہ منزل کے پاس آ کے جو رستہ بدل گیا اپنی گلی میں اپناہی گھرڈھونڈتے ہیں لوگ امجد یہ کون شہر کا نقشہ بدل گیا امجد اسلام...
کہاں آ کے رکنے تھے راستے

کہاں آ کے رکنے تھے راستے

غم ہی پھر ایسا ملا کہ بات نماز تک جاپہنچی فقط ایک سجدہ کیا اور داستان خدا تک جا پہنچی کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا امجد اسلام...