مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں تو میرا شوق دیکھ میرا انتظار دیکھ علامہ اقبال مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں تو میرا شوق دیکھ میرا انتظار دیکھ علامہ اقبال نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں علامہ اقبال حیا نہیں...
میرا ہر دن تیری ہر رات میرا ہر دن تیری ہر رات سے اچھا ہوگا میرا ہر لفظ تیری ہر بات سے اچھا ہوگا یقین نا آئے تو آزما لینا میرا جنازه بھی تیری بارات سے اچھا ہو گا ……….. بات دن کی نہیں اب رات سے ڈر لگتا ہے گھر کچا ہے میرا اب برسات سے ڈر لگتا ہے تم پیار...
دسمبر نام ہے بکھرتے رابطوں کا ہے بچھڑتے راستوں کا ہے دسمبر نام ہے جس کا مہینہ حادثوں کا ہے ………… کچھ تعلقات دسمبر اور جنوری کی طرح ہوتے ہیں رشتہ کافی نزدیک کا اور دوریاں پورے سال کی ……….. کتنا چپ سا ہے یہ دسمبر نہ ہواؤں کا شور...
جہاں انآ ہو وہاں صرف پچھتاوے ہوتے ہیں سخت رویۓ بات منوا دیتے ہیں مگر دلوں میں فاصلے بڑھ جاتے ہیں جب رہنا ساتھ ہو تو دونوں طرف رویوں میں لچک ہونی چاہیے کچھ منوا لیا کچھ مان گۓ یہی مثبت رویہ رشتوں میں تازگی برقرار رکھتا ہے جہاں انآ ہو وہاں صرف تلخیاں اور پچھتاوے ہوتے...
مگر اتنا بھروسہ ہے اپنی وفا پر فخر تو نہیں کرتے مگر اتنا بھروسہ ہے کہ ہمارے بعد تم ہم جیسا نہیں پا سکو گے ………. وہ سنتا ہے بہت قریب سے پھر تم کیوں گھبراتے ہو نصیب سے ……….. وفاداریاں زوال پر نبھائی جاتی ہیں عروج پر تو ہر شخص وفادار...