دسمبر کی شام ہو جیسے بن تیرے کائنات کا منظر دسمبر کی شام ہو جیسے درد ٹھہرا ہے آ کہ دل میں یوں عمر بھر کا قیام ہو جیسے ……….. رضائی والوں سے ہی مزاق کرتی ہوگی سردی سڑکوں پہ دسمبر کئی سال لمبا ہوتا ہے ……….. سردیاں بعد میں آتی ہیں...
دسمبر کا مہینہ دل کی بربادیوں میں بھلا مہینوں کا کیا قصور دسمبر تو اک بہانہ ہے بے وفاؤں کو برا کہنے کا ……….. کسی کو دیکھوں تو ماتھے پہ ماہ و سال ملیں کہیں بکھرتی ہوئی دھول میں سوال ملیں ذرا سی دیر دسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں یہ فرصتیں ہمیں شاید نہ اگلے...
دسمبر نام ہے بکھرتے رابطوں کا ہے بچھڑتے راستوں کا ہے دسمبر نام ہے جس کا مہینہ حادثوں کا ہے ………… کچھ تعلقات دسمبر اور جنوری کی طرح ہوتے ہیں رشتہ کافی نزدیک کا اور دوریاں پورے سال کی ……….. کتنا چپ سا ہے یہ دسمبر نہ ہواؤں کا شور...
دسمبر کی شاعری میرا دسمبر سے کوئی واسطہ نہیں میری بربادی میں پورا سال شریک تھا ……….. وہ یاد آیا کچھ یوں کے لوٹ آئے سبھی سلسلے ٹھنڈی ہوا زرد پتے اور دسمبر کی پہلی بارش ………. نہ وہ ہوائیں نہ بارش نہ سردی کا وہ عالم دسمبر پہلے تو کبھی...
اعتبار اگر ٹوٹ جائے اجڑے لوگوں کو کبھی اجاڑا نہیں کرتے جہاں دل لگ جائے پھر کنارہ نہیں کرتے تم نے مجھے چھوڑا تھا تو پھر سنو اے شخص اعتبار اگر ٹوٹ جائے دوبارہ نہیں کرتے ……….. تم سے محبت کر کے یہ سیکھا میں نے کہ دوبارہ کسی کے ساتھ مخلص نہیں ہونا...