وہ کتنا بدل گیا

وہ کتنا بدل گیا

وہ کتنا بدل گیا آنکھوں کا رنگ ، بات کا لہجہ بدل گیا وہ شخص ایک شام میں کتنا بدل گیا شاید وفا کے کھیل سے اکتا گیا تھا وہ منزل کے پاس آ کے جو رستہ بدل گیا اپنی گلی میں اپناہی گھرڈھونڈتے ہیں لوگ امجد یہ کون شہر کا نقشہ بدل گیا امجد اسلام...
ہمارے چاہنے والے

ہمارے چاہنے والے

ہمارے چاہنے والے ہمیں سے بچھڑنے کا بہانہ چاہتے ہیں اب آگے راستہ مشکل نہیں ہے مگر ہم لوٹ جانا چاہتے ہیں ‎عجب اِک اضطراری کیفیت ہے ‎اُسے بھی بھول جانا چاہتے...
‏ذہن کےدریچے پر

‏ذہن کےدریچے پر

‏ذہن کےدریچے پر، سوچ کی یہ دستک ہے تم کو یاد رکھنا ہے،یا کہ بھول جانا ہے تم بدل گئے لیکن، میں وہیں پہ ٹہرا ہوں تیرے ساتھ باندھا جو، عہد وہ نبہانا ہے روز میری ہستی سے، راکھ اُڑتی رہتی ہے کھو دیا جو تجھ کو تو، اور کیا گنوانا ہے ۔...
ماہتاب مانگتے ہیں

ماہتاب مانگتے ہیں

ماہتاب مانگتے ہیں ستارے چاہتے ہیں ماہتاب مانگتے ہیں مرے دریچے نئی آب و تاب مانگتے ہیں وہ خوش خرام جب اس راہ سے گزرتا ہے تو سنگ و خشت بھی اذن خطاب مانگتے ہیں کوئی ہوا سے یہ کہہ دے ذرا ٹھہر جائے کہ رقص کرنے کی مہلت حباب مانگتے ہیں عجیب ہے یہ تماشا کہ میرے عہد کے لوگ...
ہر شام کہتے ہو

ہر شام کہتے ہو

ہر شام کہتے ہو ہر شام یہ کہتے ہو  کہ کل شام ملیں گے آتی نہیں وہ شام  جس شام ملیں گے اچھا نہیں لگتا مجھے  شاموں کا بدلنا کل شام بھی کہتے تھے  کہ کل شام ملیں گے آتی ھے جو ملنے کی گھڑی  کرتے ہو بہانے ڈرتے ہو ڈراتے ہو  کہ الزام ملیں گے یہ راہِ محبت ھے  یہاں چلنا نہیں آساں...