بجھ گیا رات وہ ستارا بھی

بجھ گیا رات وہ ستارا بھی

بجھ گیا رات وہ ستارا بھی حال اچھا نہیں ہمارا بھی یہ جو ہم کھوئے کھوئے رہتے ہیں اس میں کچھ دخل ہے تمہارا بھی ڈوبنا ذات کے سمندر میں ہے یہ طوفان بھی کنارا بھی اب مجھے نیند ہی نہیں آتی خواب ہے خواب کا سہارا بھی لوگ جیتے ہیں کس طرح اجملؔ ہم سے ہوتا نہیں گزارا بھی اجمل...
مگر اس ادا سے رونا کے روئے سارا زمانا

مگر اس ادا سے رونا کے روئے سارا زمانا

مگر اس ادا سے رونا کے روئے سارا زمانا اپنے سائے سے بہی اشکوں کو چھپا کر رونا جب بہی رونا تو چراغوں کو بجھا کر رونا جہاں چوٹ کہانا وہاں مسکرانا مگر اس ادا سے رونا کے روئے سارا...
کہاں آ کے رکنے تھے راستے

کہاں آ کے رکنے تھے راستے

غم ہی پھر ایسا ملا کہ بات نماز تک جاپہنچی فقط ایک سجدہ کیا اور داستان خدا تک جا پہنچی کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا امجد اسلام...
نہ جانے کتنی مدت سے

نہ جانے کتنی مدت سے

نہ جانے کتنی مدت سے نہ جانے کتنی مدت سے ہے دل میں یہ عمل جاری مرشد ذرا سی چوٹ لگتی ہے اور میں سارا ٹوٹ جاتا ہوں
اس قصے کو سال ہوا

اس قصے کو سال ہوا

اس قصے کو سال ہوا آنکھ کا دریا لال ہوا تو باتیں کرنا بھول گۓ شہرِ دل پامال ہوا تو باتیں کرنا بھول گۓ کتنا زُعم تھا ہم سے پل بھر دور نہیں وہ رہ سکتے اس قصے کو سال ہوا تو باتیں کرنا بھول...