وصل کی رات

وصل کی رات

‏لہریں اٹھ اٹھ کےمگر اس کا بدن چومتی تھیں وہ جو دریا پہ گیا خوب ہی دریا چمکا یوں تو ہر رات چمکتے ہیں ستارے لیکن وصل کی رات بہت صبح کا تارا چمکا جیسے بارش سے دھلے صحن گلستاں امجد آنکھ جب خشک ہوئی اور بھی چہرا چمکا امجد اسلام...
جو زخم تو نے دیے

جو زخم تو نے دیے

یہ اور بات ہے تجھ سے گلا نہیں کرتے جو زخم تو نے دیے ہیں بھرا نہیں کرتے ہزار جال لیے گھومتی پھرے دنیا ترے اسیر کسی کے ہوا نہیں کرتے یہ آئنوں کی طرح دیکھ بھال چاہتے ہیں کہ دل بھی ٹوٹیں تو پھر سے جڑا نہیں کرتے ہر اک دعا کے مقدر میں کب حضوری ہے تمام غنچے تو محبت کے کھلا...