پھسلا جو میرے ہاتھ سے وہ پل نہیں ملا گزرا جو میرا کل مجھے واپس نہیں ملا سوچا کسی کے دل میں اب گھر بنا لوں لیکن کسی کا دل مجھے ثابت نہیں ملا ایسا نہیں کہ مجھے منزل نہیں ملی منزل ملی مگر کبھی رستہ نہیں ملا...
قبول ہوتی ہوئی بد دعا سے ڈرتے ہیں وگرنہ لوگ کہاں یہ خدا سے ڈرتے ہیں چلو کہ فیصلہ آخر یہاں تمام ہوا یہ کم نصیب تری خاک پا سے ڈرتے ہیں سبھی سے کہتے ہیں بس خیر کی دعا مانگو کبھی کبھی تو ہم اتنا خدا سے ڈرتے ہیں یہی برائی ہے بجھتے ہوئے چراغوں میں یہ خشک پتوں کی صورت ہوا سے...
کبھی بھی اپنی جسمانی طاقت اور دولت پر بھروسہ نہ کرو کیونکہ بیماری اور غربت آنے میں دیر نہیں لگتی پتہ نہیں ہم رب سے جڑنے کے لیے اپنے ٹوٹنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں تم جو دیتے ہو دوسرے کو وہ تم نہیں دیتے اور حقیقت تو یہ ہے کہ اب ہمیں خدا تب یاد آتا ہے جب ہم درد کے مارے...
تُجھے حاصل نہ کر نے پر بہت اُداس ہوں میں جیسے کوئی تیرا نہ پسندیدہ لباس ہوں میں تیری یادوں کا تصور کا چھوٹتا نہیں میرے ذہن سے لگتاہے تیرے ہاتھ سے گر جانے والا کوئی گلاس ہوں...
بجھ گیا رات وہ ستارا بھی حال اچھا نہیں ہمارا بھی یہ جو ہم کھوئے کھوئے رہتے ہیں اس میں کچھ دخل ہے تمہارا بھی ڈوبنا ذات کے سمندر میں ہے یہ طوفان بھی کنارا بھی اب مجھے نیند ہی نہیں آتی خواب ہے خواب کا سہارا بھی لوگ جیتے ہیں کس طرح اجملؔ ہم سے ہوتا نہیں گزارا بھی اجمل...