تھا پہلا سفر اس کی رفاقت بھی نئی تھی رستے بھی کٹھن اور مسافت بھی نئی تھی دل تھا کہ کسی طور بھی قابو میں نہیں تھا رہ رہ کے دھڑکنے کی علامت بھی نئی تھی جب اس نے کہا تھا کہ مجھے عشق ہے تم سے آنکھوں میں جو آئی تھی وہ حیرت بھی نئی...
ہر شام کہتے ہو ہر شام یہ کہتے ہو کہ کل شام ملیں گے آتی نہیں وہ شام جس شام ملیں گے اچھا نہیں لگتا مجھے شاموں کا بدلنا کل شام بھی کہتے تھے کہ کل شام ملیں گے آتی ھے جو ملنے کی گھڑی کرتے ہو بہانے ڈرتے ہو ڈراتے ہو کہ الزام ملیں گے یہ راہِ محبت ھے یہاں چلنا نہیں آساں...
دوست بھی ملتے ہیں دوست بھی ملتے ہیں محفل بھی جمی رہتی ہے تو نہیں ہوتا تو ہر شے میں کمی رہتی ہے اب کے جانے کا نہیں موسمِ گر یہ شاید مسکرائیں بھی تو آنکھوں میں نمی رہتی ہے عشق عمروں کی مسافت ہے کسے کیا معلوم؟ کب تلک ہم سفری ہم قدمی رہتی ہے کچھ جزیروں میں کبھی...
محبت تو ایسی تھی کہ خدا سے جا ملا عشق مجازی سے عشق حقیقی سے جا ملا ملے تو معلوم ہوا کہ محبت اس سے نہیں خدا سے تھی ورنہ ہم نے تو کبھی مثلے پر عشق کی نمازیں نہیں پڑھی سجدوں میں گر کر مانگا تھا اسے مانگتے مانگتے خدا سے جا ملا ترک کی نمازیں سکون اک پل نہیں سکون کی تلاش...
تُجھے حاصل نہ کر نے پر بہت اُداس ہوں میں جیسے کوئی تیرا نہ پسندیدہ لباس ہوں میں تیری یادوں کا تصور کا چھوٹتا نہیں میرے ذہن سے لگتاہے تیرے ہاتھ سے گر جانے والا کوئی گلاس ہوں...