لہریں اٹھ اٹھ کےمگر اس کا بدن چومتی تھیں وہ جو دریا پہ گیا خوب ہی دریا چمکا یوں تو ہر رات چمکتے ہیں ستارے لیکن وصل کی رات بہت صبح کا تارا چمکا جیسے بارش سے دھلے صحن گلستاں امجد آنکھ جب خشک ہوئی اور بھی چہرا چمکا امجد اسلام...
یہ اور بات ہے تجھ سے گلا نہیں کرتے جو زخم تو نے دیے ہیں بھرا نہیں کرتے ہزار جال لیے گھومتی پھرے دنیا ترے اسیر کسی کے ہوا نہیں کرتے یہ آئنوں کی طرح دیکھ بھال چاہتے ہیں کہ دل بھی ٹوٹیں تو پھر سے جڑا نہیں کرتے ہر اک دعا کے مقدر میں کب حضوری ہے تمام غنچے تو محبت کے کھلا...
وہ کتنا بدل گیا آنکھوں کا رنگ ، بات کا لہجہ بدل گیا وہ شخص ایک شام میں کتنا بدل گیا شاید وفا کے کھیل سے اکتا گیا تھا وہ منزل کے پاس آ کے جو رستہ بدل گیا اپنی گلی میں اپناہی گھرڈھونڈتے ہیں لوگ امجد یہ کون شہر کا نقشہ بدل گیا امجد اسلام...
بدلہ جو وقت گہری رفاقت بدل گئی سورج ڈھلا تو سائے کی صورت بدل گئی اک عمر تک میں اس کی ضرورت بنا رہا پھر یوں ہوا کہ اس کی ضرورت بدل گئی
ہمارے چاہنے والے ہمیں سے بچھڑنے کا بہانہ چاہتے ہیں اب آگے راستہ مشکل نہیں ہے مگر ہم لوٹ جانا چاہتے ہیں عجب اِک اضطراری کیفیت ہے اُسے بھی بھول جانا چاہتے...