
کمرے میں میرے غم کے سِوا
آنکھوں وہ بزم، جس کا نشاں ڈولتے چراغ دل وہ چمن، کہ جس کا ہے رنگِ بہار دُھند کمرے میں میرے غم کے سِوا اور کُچھ نہیں کھڑکی سے جھانکتی ہے کسے بار بار’ دُھند فردوسِ گوش ٹھرا ہے مبہم سا کوئی شور نظّار گی کا شہر میں ہے اعتبار، دُھند کوئی بھی چیز اپنی جگہ پر نہیں رہی جاتے ہی...

وصل کی رات
لہریں اٹھ اٹھ کےمگر اس کا بدن چومتی تھیں وہ جو دریا پہ گیا خوب ہی دریا چمکا یوں تو ہر رات چمکتے ہیں ستارے لیکن وصل کی رات بہت صبح کا تارا چمکا جیسے بارش سے دھلے صحن گلستاں امجد آنکھ جب خشک ہوئی اور بھی چہرا چمکا امجد اسلام...

جو زخم تو نے دیے
یہ اور بات ہے تجھ سے گلا نہیں کرتے جو زخم تو نے دیے ہیں بھرا نہیں کرتے ہزار جال لیے گھومتی پھرے دنیا ترے اسیر کسی کے ہوا نہیں کرتے یہ آئنوں کی طرح دیکھ بھال چاہتے ہیں کہ دل بھی ٹوٹیں تو پھر سے جڑا نہیں کرتے ہر اک دعا کے مقدر میں کب حضوری ہے تمام غنچے تو محبت کے کھلا...

جس کا عنوان عورت
میرا دل کر رہا ہے کہ میں ایک کتاب لکھوں جس کا عنوان عورت ہو میں اس کا صبر بھی لکھوں اس کا کرب بھی لکھوں میں اس کی آہ بھی لکھوں اس پر وا ہ بھی لکھوں اس کی ذات پر اٹھے وہ الفاظ بھی لکھوں جسے سن کر وہ کبھی رو دیتی ہے کبھی ہنس دیتی ہے اور کبھی چپ چاپ سہ جاتی...

وہ کتنا بدل گیا
وہ کتنا بدل گیا آنکھوں کا رنگ ، بات کا لہجہ بدل گیا وہ شخص ایک شام میں کتنا بدل گیا شاید وفا کے کھیل سے اکتا گیا تھا وہ منزل کے پاس آ کے جو رستہ بدل گیا اپنی گلی میں اپناہی گھرڈھونڈتے ہیں لوگ امجد یہ کون شہر کا نقشہ بدل گیا امجد اسلام...

رفاقت بدل گئی
بدلہ جو وقت گہری رفاقت بدل گئی سورج ڈھلا تو سائے کی صورت بدل گئی اک عمر تک میں اس کی ضرورت بنا رہا پھر یوں ہوا کہ اس کی ضرورت بدل گئی

ہمارے چاہنے والے
ہمارے چاہنے والے ہمیں سے بچھڑنے کا بہانہ چاہتے ہیں اب آگے راستہ مشکل نہیں ہے مگر ہم لوٹ جانا چاہتے ہیں عجب اِک اضطراری کیفیت ہے اُسے بھی بھول جانا چاہتے...

ذہن کےدریچے پر
ذہن کےدریچے پر، سوچ کی یہ دستک ہے تم کو یاد رکھنا ہے،یا کہ بھول جانا ہے تم بدل گئے لیکن، میں وہیں پہ ٹہرا ہوں تیرے ساتھ باندھا جو، عہد وہ نبہانا ہے روز میری ہستی سے، راکھ اُڑتی رہتی ہے کھو دیا جو تجھ کو تو، اور کیا گنوانا ہے ۔...

رفاقت بھی نئی تھی
تھا پہلا سفر اس کی رفاقت بھی نئی تھی رستے بھی کٹھن اور مسافت بھی نئی تھی دل تھا کہ کسی طور بھی قابو میں نہیں تھا رہ رہ کے دھڑکنے کی علامت بھی نئی تھی جب اس نے کہا تھا کہ مجھے عشق ہے تم سے آنکھوں میں جو آئی تھی وہ حیرت بھی نئی...

ماہتاب مانگتے ہیں
ماہتاب مانگتے ہیں ستارے چاہتے ہیں ماہتاب مانگتے ہیں مرے دریچے نئی آب و تاب مانگتے ہیں وہ خوش خرام جب اس راہ سے گزرتا ہے تو سنگ و خشت بھی اذن خطاب مانگتے ہیں کوئی ہوا سے یہ کہہ دے ذرا ٹھہر جائے کہ رقص کرنے کی مہلت حباب مانگتے ہیں عجیب ہے یہ تماشا کہ میرے عہد کے لوگ...