
اپنی سوچ کو صاف رکھو کیونکہ
اپنی سوچ کو صاف رکھو کیونکہ جس طرح پانی کے قطروں سے دریا بنتا ہے اسی طرح صاف سوچ سے ایمان بنتا ہے

سلیقہ نہیں جن کو
سلیقہ نہیں جن کو دریا میں اترنے کا سلیقہ نہیں جن کو نادان ہے ساحل پہ گوہر ڈھونڈ رہے ہیں ہم لوگ نمازوں کے بھی پابند نہیں ہیں اور اپنی دعاؤں میں اثر ڈھونڈ رہے...

ایتھے کئیاں نوں مان وفاواں دا
ایتھے کئیاں نوں مان وفاواں دا ایتھے کئیاں نوں مان وفاواں دا تے کئیاں نوں ناز اداواں دا اسی پیلے پتے درختاں دے سانوں رہندا خوف ہواواں دا

گل تا ساری پیسے دی بائی
گل تا ساری پیسے دی بائی جے جیب بھری تا لوگ سلام کردے تے جے کھلی آں تے بدنام

گھر ایک ہی رہتا ہے مہمان بدلتے رہتے ہیں
اس رنگ بدلتی دنیا میں انسان بدلتے رہتے ہیں گھر ایک ہی رہتا ہے مہمان بدلتے رہتے ہیں

قبر پہ تم میری رونے آؤ گے
قبر پہ تم میری رونے آؤ گے ہم سے پیار ہے یہ بتانے آؤ گے ابھی زندہ ہے تو بہت رلاتے ہو جب سوئینگے تو جگانے آؤ گے

غزل عباس تابش
غزل عباس تابش دہن کھولیں گی اپنی سیپیاں آہستہ آہستہ گزر دریا سے اے ابر رواں آہستہ آہستہ لہو تو عشق کے آغاز ہی میں جلنے لگتا ہے مگر ہونٹوں تک آتا ہے دھواں آہستہ آہستہ پلٹنا بھی اگر چاہیں پلٹ کر جا نہیں سکتے کہاں سے چل کے ہم آئے کہاں آہستہ آہستہ کہیں لالی بھری تھالی نہ...

تمہیں کبھی پورا لکھوں
تمہیں کبھی پورا لکھوں کبھی ادھورا لکھوں
میں رات کو بیٹھ کر تمہیں سویرا لکھوں
میں جب بھی لکھوں بس اتنا لکھوں
مجھے تیرا اور تجھے میرا لکھوں

کچھ حادثے خاموش کر دیتے ہیں
کچھ حادثے خاموش کر دیتے ہیں
ورنہ گفتگو کس کو نہیں آتی

اے وقت تو نے دیکھا ہے
اے وقت تو نے دیکھا ہے تو نے اے وقت پلٹ کر بھی کبھی دیکھا ہے کیسے ہیں سب تیری رفتار کے مارے ہوئے لوگ