شاعری عباس ممتاز

کہیں پہ منطق کہیں دلائل ضرور ہوں گے

رہ جنوں میں سوال حائل ضرور ہوں گے

شاعری عباس ممتاز

کہیں پہ منطق کہیں دلائل ضرور ہوں گے

رہ جنوں میں سوال حائل ضرور ہوں گے

تھکن کے عالم میں کون بستر کو چھوڑتا ہے

وہ جا رہا ہے تو کچھ مسائل ضرور ہوں گے

تم اپنی ضد پر ڈٹے ہوئے ہو تو پھر یقیں ہے

تمہارے دامن میں کچھ دلائل ضرور ہوں گے

ابھی تو عمر رواں کی پہلی بہار میں ہیں

ابھی تو خوشبو کی اور مائل ضرور ہوں گے

تمہارا لہجہ تمہارے لفظوں سے مختلف ہے

تمہارے لہجے سے لوگ گھائل ضرور ہوں گے

عباس ممتاز

‏جدائی کے ستم ڈھانے سے پہلے

پلٹ آؤ بکھر جانے سے پہلے

ہمیں رنگوں کی یوں پہچان کب تھی

تمہارے رو بہ رو آنے سے پہلے

کہاں تھے کیا تھے شاید کچھ نہیں تھے

تری نظروں میں ہم آنے سے پہلے

‎ شاعری عباس ممتاز 

جدائی کے ستم ڈھانے سے پہلے

پلٹ آؤ بکھر جانے سے پہلے

خوشی تھی رنگ تھے رعنائیاں تھیں

تمہارے شہر میں آنے سے پہلے

ابھی بھی وقت ہے تم لوٹ آؤ

مرے دل سے اتر جانے سے پہلے

ہمیں رنگوں کی یوں پہچان کب تھی

تمہارے رو بہ رو آنے سے پہلے

مجھے بھی زعم تھا غزلوں پہ اپنی

تری آنکھوں میں کھو جانے سے پہلے

کہاں تھے کیا تھے شاید کچھ نہیں تھے

تری نظروں میں ہم آنے سے پہلے

عباس ممتاز

یہ سرخ آنکھیں اداس لے کر کہاں چلے ہو

کہ خواہش بے لباس لے کر کہاں چلے ہو

ہمیں تو درپیش ایک وحشت ہے تم بتاؤ

یہ خشک ہونٹوں پہ پیاس لے کر کہاں چلے ہو

ابھی تو ہم مبتلا ہوئے ہیں فدا ہوئے ہیں

ہمارے ہوش و حواس لے کر کہاں چلے ہو

یہاں عداوت پسند لوگوں کی بھیڑ ہے تم

دل محبت شناس لے کر کہاں چلے ہو

شاعری عباس ممتاز

زندگی کا کوئی بھی اشارہ نہیں

کوئی جگنو نہیں کوئی تارا نہیں

مہرباں جانے کب کس پہ ہو جائے یہ

زندگی پر کسی کا اجارہ نہیں

جیت کی دھن مجھے کس طرف لے گئی

ہارنے کے سوا کوئی چارہ نہیں

پہلے جس کے لیے دل دھڑکتا رہا

وہ کبھی تھا مگر اب ہمارا نہیں

میرے چاروں طرف لوگ ہی لوگ ہیں

کوئی اپنا نہیں کوئی پیارا نہیں

عباس ممتاز

اب جو پیروں پہ ہم کھڑے ہوئے ہیں

ایک دنیا سے ہم لڑے ہوئے ہیں

دیکھ ہم کو کہانیاں نہ سنا

ہم اسی شہر میں بڑے ہوئے ہیں

خود کو برباد کر لیا ہم نے

اپنی ضد پر مگر اڑے ہوئے ہیں

کوئی تو ہم کو تھامنے آئے

کوئی دیکھے کہ ہم کھڑے ہوئے ہیں